*آیت 148* میں کسی شخص کی برائ کو کس وقت لوگوں کے درمیان بیان کیا جا سکتا ہے
جواب
اگر کوئی کسی پر ظلم کر رہا ہے صرف مظلوم کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ظلم کے خلاف لوگوں کے سامنے بیان کر سکتا ہے جس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہے حدیث میں آتا ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذاء دیتا ہے ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو اس نے ایسا ہی کیا چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویہ کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہگزر اس پر لعنت ملامت کرتا پڑوسی نے نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور اسے اپنا سامان اندر رکھنے کے التجا کی
سنن ابی داود
اگر کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو وہ کیا کرے گا آج کل کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کسی کو بتائیں گے تو یہ غیبت ہو جائے گی لیکن اسے اس ظلم کے خلاف بات کرنا ہوگی تاکہ اس کی مدد کی جاسکے
اگر کسی کا کوئی نام اس کا تعارف بنا ہوا ہو تو وہ بھی غیبت نہیں ہے
کسی کا نام ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس کا تعارف بن چکا ہوتا ہے
اگر کوئی دوسروں کو دھوکہ دیتا ہو تو اس کے بارے میں بھی دوسروں کو بتا دینا چاہیے کہ اس سے بچ کر رہے اور مزید لوگوں کو اس کے دھوکے کی وجہ سے پریشان نہ ہونا پڑے
ہم اپنے علم کی کمی کی وجہ سے اسے غیبت سمجھتے ہیں جبکہ یہ غیبت نہیں ہیں آپ کی وجہ سے کسی اور کو دھوکا اٹھانا پڑے تو یہ اچھی بات نہیں ہے اسی طرح کسی سے رشتہ کا معاملہ ہو تو اس میں بھی بالکل صحیح بات بتا دینی چاہیے
کسی کو بالکل صحیح مشورہ دینا غیبت نہیں ہے
اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بارے میں فتوی پوچھتی ہے تو بھی غیبت نہیں ہے
No comments:
Post a Comment