Ashabe kahf ka waqia....
Ashab e kahaf ka waqeia
اصحاب کہف کا واقعہ
کہف کے معنی غار کے ہیں اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا اس لئے اسے سورہ کہف کہا جاتا ہے اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا صحیح مسلم
جو اس کی تلاوت جمعے کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی اس کے پڑھنے سے گھر میں سکینہ تو برکت نازل ہوتی ہے ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی انہوں نے سورہ کہف پڑی گھر میں ایک جانور بھی تھا وہ بدکنا شروع ہوگیا انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے تو انہوں نے ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا یا اسے پڑھا کرو قرآن پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے
صحیح بخاری کہف وہ غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے .......بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع ہے اور کہتے ہیں رقیم مرقوم سے ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے اسی سے کی جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ نام تحریر ہے حالیہ تحقیق سے معلوم ہے تو پہلی بات زیادہ صحیح ہے جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے الرقیب کہا جاتا ہے................ .....Ashabe kahf ka waqia
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا دقیانوس جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا اللہ تعالی نے ان چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان اور زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے یہ الگ ہوکر کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ توحید کا چرچا ہوا تو بادشاہ تک بات پہنچ گئے اور اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی اور اپنی رقوم کے ڈر سے بچانے کے لیے ہوگئے جہاں اللہ تعالی نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ 309 سال سوئے رہے اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لیے بڑا سبق ہے اللہ تعالی سورہ کہف کی آیت نمبر 13 میں فرماتے ہیں ہم ان کا صحیح واقعات تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ہم نے انکے دل مضبوط کر دیے تھے جبکہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلب ہوئی ہے جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے توحید کا یہ واضح بیان کیا بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے ایک دوسرے کو توحید کی وہ بات سنائی جو فردن فردن اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہمی ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے نا ممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارے اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے اللہ پر جھوٹ افترا باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے
Ashabe kahf ka waqia
آیت نمبر 15
جبکہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو تمہارے رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا آپ دیکھیں گے کہ آفتاب وقت لو ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس بار کشادہ جگہ میں ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالی جس کی رہبری فرمائیے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کردے ناممکن ہی کارساز رہنما پاسکے یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کرلی ہے تو آپ جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا چنانچہ اس کے بعد وہ غار میں جا چھپے جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں کو ناکام رہے تھے یعنی سورج طلوع کے وقت تو دائیں جانب اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں وقت میں ان پر دھوپ نہ پڑتی حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے خود ہم ہیں انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا اگر آپ جان کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اوران کے رعب سے آپ پر دہشت ہو جاتی یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جا سکے18
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں ایک کہنے والے کیوں بھائی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالی ہی کو ہے اب تو تم کو اپنی ہی چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کے شہر کا کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لیے لے آئے اور وہ بہت احتیاط اور نرمی بڑھتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا یوں وہ ہم سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم دن کا کچھ حصہ سوئے رہے بعض روایت کے مطابق کی آگاہی اسی طرح ہوئی کہ جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا وہ سکّہ لے کر شہر گیا جو تین سو سال قبل بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا تو وہ حیران ہوا اس نے سات کی دکان والے کو دکھایا وہ بھی حیران ہوا جبکہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اسی شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہیں یہاں سے گیا ہوں لیکن اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھی لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو بات بات بادشاہ یہاں کی میں مجاز تک پہنچی اور اس کے ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور صحابہ کہ آپ سے ملاقات کی اس کے بعد اللہ تعالی نے انہیں پھر وہی وفات دے دی ابن کثیر
اگر یہ کافر تم پر غلبہ پالے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں پھر اپنے دین پر لوٹ آئیں گے اور پھر تم کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکو گے20 یعنی آخرت کے جس کامیابی کے لیے ہم نے یہ سوبت مشقت برداشت کی ظاہر بات ہے کہ اگر ہم اہل شہر نے ہمیں مجبور کرکے پھر اپنے آبائی دین کی طرف لوٹا دیا تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا ہماری محنت برباد ہوجائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے
ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت پر میں کوئی شک و شبہ نہیں جبکہ وہ اپنے میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے کہنے لگے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ہیں ان کے حال کا زیادہ علم ہے جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم بنا لینگے21
یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنھوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر دریافت ہوئی تو نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے علم منائے کے فلاں فلاں پیغمبر کی ہے تفسیر ابن کثیر کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا کچھ کہیں گے کہ پانچ دے اور چھٹا ان کا کتا تھا غائب کی باتوں پر اٹکل چلاتے ہیں کچھ کہیں گے کہ وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو خوب جاننے والا ہے انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں بس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگوہیں کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں یعنی صرف انہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے کردی گئی ہے صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھی تھی روح کی حقیقت کیا ہے اس تھے کہ یہی سوالات اس سورت کے نزول کا سبب بنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دوں گا لیکن اس کے بعد پندرہ دن تک جبرئیل بہی لے کر نہیں آئے پھر جب آئے تو اللہ تعالی نے نے ان شاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا
مگر ساتھ ہیں انشاللہ کہ لینا اور جب بھی بھولے اپنے پروردگارکی یاد کرلیا کرنا اور کہتے رہنا کہ مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھ سے اس سے بھی زیادہ ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کریں 24
Ashabe kahf ka waqia
Surah e kahaf
analysis
*سورۃـالکہف*
ڈاکٹر فرحت ھاشمی
نے دو سال لگائے سورہ کہف سمجھنے میں اور ۱۲۰ تفاسیر کا
مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی۔
ہم اس سورۃ کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔
تو اس سورۃ کامقصود/ لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی ، غمی۔
ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے۔ ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہو ں گے۔ تو یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے۔ یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں۔ یا صحت ہو گی یا بیماری۔ تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے۔ کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔
تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبرکا پیپر۔ اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا ۔ اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا۔
یہ زندگی دار الامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسراشکر کا۔
اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا۔ پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔
*حضرت آدم علیہ اسلام کاواقعہ۔
یہ قلب ہے اس سورت کا۔ آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی۔
آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہو کر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے، دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے۔ ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا۔ اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کےپیپر لیتے ہیں۔
کچھ نکات
※ اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربویت کے تذکرے پر کیا۔
※ شروع سورۃ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔
※ انسان کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے۔ اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آ جائے۔ اب صرف محبت کا آ جانا مقصود نہیں ہے ، جب محبت آ جائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور رضا کیا ہے اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا۔
جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہو جائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہو جاتا ہے۔
※ عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیئے استعمال کیا۔
مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا ، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔
※ چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لیے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔ اس لیےکہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔
※ پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ ،اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور۔
آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔ آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے۔ اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا۔ جی ہاں کہف میں!
※ آج کے زمانے میں پانچ کہف ہیں۔ اگر انسان ان میں داخل ہو جائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے۔
※ *ان میں پہلا کہف ہے مدارس
ان میں جو داخل ہو جائے وہ اپنا ایمان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
※ دوسرا اللہ والوں کی خانقاہیں
جو لوگ اللہ والوں سے جڑ جاتے ہیں تو وہ لوگ زمانے کے فتنے اور فساد سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
※ تیسرا دعوت و تبلیغ کا کام کرنایہ بھی کہف کی مانند ہے۔ وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے گھر والوں کا دین بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔
※ چوتھا قرآن مجید
جو قرآن کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے اس کو پڑھنا ،سیکھنا ،سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچا لیتا ہے اور قرآن اس کے لئیے کہف بن جاتا ہے۔
※ پانچواں مکہ اور مدینہ
یہ پانچواں کہف ہے۔ احادیث کے مطابق جو بھی ان میں داخل ہو جائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا۔*
تو یہ پانچ کہف ہیں جن میں داخل ہونے سے انسان اپنے ایمان کو بچا لیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔
※ اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔
اور ان پانچ کہف کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
※ صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا
کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آ گیا اور اس نعمت سے محروم کر دیا گیا۔
※ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لیئےدار اقامت ہے ہمارا اصلی وطن جنت ہے دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بےوقوفی کی بات ہے۔ شیطان بدبخت نے ہمیں چھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں۔ اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچا دے۔ آمین
※ موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں ،دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا۔
انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں۔
علم اوربھی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندہ کا ذہن محفوظ ہو جاتا ہے۔
※ حضرت ذوالقرنین کے واقعے سےسبق ملا
حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیئے اللہ کے بندوں کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے۔ ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیئے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پراللہ کا قانون نافذ کرتے تھے۔ جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار/ طاقت کو اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔
※ سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کر کے بندے کے ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کی جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں :۔
1-جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ ہر وقت دنیا اور اس کی لذات کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہےلہذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔
2-اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اہنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کرسکو گے۔
3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے، جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص دو کام کرے ایک نیک عمل اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے۔
اللہ ہمیں بھی اپنا دیدار عطا نصیب فرمائے آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین مین