Tuesday, June 30, 2020

Answers of para 2 part 2

Para 2* *سیقول*
*Lesson 02*
*Surah Baqarah-  *Ayat 173 sy 202*
ربع سے نصف
🌸🌺🌸🌺🌸🌺🌸
*Question 1*: *Ayat 173 mai kin Haraam chezon ka zikar aya hai* ?
*Answer*.

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀

*Question2*. Ayat 177 mai neik Aor achy shekhs k kia اوصاف batay gay hain?

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question3* *Ayat 179 main قصاص ko zindagi kiu kaha gya hai ?*  tafseer se jawab den
*Answer* 

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question 4*: * Ayat 182 sy 185 Rozy ki farziyat ka hukam kis ayat mai hai. نیزRukhsat kin logon k liy hai.?
*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question5*: * Ayat 187 ki tafseer say btaein k kya ghar mean  اعتكاف ho sukta hy.
*Answer* 

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question#6**Ayat 196 sy 199 Hajj k mahiny konsy hain naiz Hajj karny waly k  leay konsy kaam mana hain? Tarjuma Tafseer sy dekh k wazahat karain
*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #7*Hajj ka wo kon sa اہم rukan hai jisy ada kiy bagair hajj mukamal nhi hota ayat 198 se jawab den ?*
*Answer*:

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question 8*: *wo kon se dua hai jo رکن یمانی se حجر اسود tak parhna masnoon hai ayat 201 se jawab den ?*
*Answer*

........
Question 1
Ans,1
مردا اور بہا ہوا خون
سور کا گوشت
اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے
Question 2
Ans,2
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقت اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالی پر,  قیامت کے دن پر, فرشتوں پر, کتاب اللہ پر, اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو, جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں یتیموں مسکینوں ,مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے, تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
Question 3
Ans,3
جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کر دیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جرات نہیں ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہو جاتا ہے وہاں یہ خوف  معاشرے کو قتل و خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں   نہایت امن اور سکون رہتا ہے .
Question 4
Q 4
Soora  Baqrah
Ayat 182,183
روزے کی فرضیت کا حکم کس آیت میں ہے اور رخصت کے لوگوں کے لیے ہے.
Ans..
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 103 میں روزے کی فرضیت کا حکم ہے بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیمار یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کر لیں 
Question 5

Soora  Baqrah
Ayat no,,187
Ans..
نہیں اس آیت کی رو سے گھر میں اعتکاف نہیں ہو سکتا.
Question 6
Q..6
Ayat no..196..sy..199
حج کے مہینے کون سے ہیں نیز حج کرنے والے کے لیے کون سے کام منع ہے ترجمہ اور تفسیر سے بتائیں .
Ans.. حج کے مہینے شوال ذیقعد اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں 
جو شخص حج کرنے کے لئے جائے وہ ان کاموں سے بچے.....     (وہ اپنی بیوی سے ملاپ کرنے گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا سے بچتا رہے)
Question 7

Soora  Baqrah
Ayat..198
9 ذی الحج کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے .
Question 8

Q..8
Soora Baqrah
Ayt no.201
وہ کونسی دعا ہے  جو رکن یمانی اور حجر اسود تک  پڑھنا مسنون ہے آیت نمبر 201 سے جواب دیں
رَبَّنَاۤ  اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً  وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً  وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۲۰۱﴾ ؒ

Saturday, June 27, 2020

Answers of para 2 part 1

❤بسم الله الرحمن الرحيم     ❤                                                       
  °°°°
                   Para 2
*Lesson #1

*Surah baqarah* (143 - 170 )

🌺🌸🌺🌸🌺🌸🌺🌸
*Question #1*
(Ayat 143) " امت وسط " se muraad kon se ummat hai ? Tafseer dekh kr mukhtasir jawab den.

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #2*
(Ayat 142 -144 ) qibla badalny ki kia hikmat o wajuhat thi tarjuma aur tafseer parh kar mukhtasir  bayan krn.

*Answer*
🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question # 3* 
(Ayat 151 ) main Rasool ka kia kaam bataya ja raha hai ?

*Answer* 

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #4*
Shaheed zinda hain konsi ayat se yh baat maloom hoi ? Ayat number likhen.

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #5*
(Ayat 155) main insaan ki azmaish kin cheezon se ki jati hai ?

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #6*
(Ayat 156 ) museebat any par kia kahna chahiye. Arbi main likhen.

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question #7*
(Ayat 159 ) " ALLAH ki utari gai ayaat hidayat ko chupany ki kia saza hai ?

*Answer*

🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀
*Question # 8*
(Ayat 168 -169 ) In ayaat main kon se 2 hukam diye gay hain ?
🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫🚫
*Answer. ....1

امت وسط  سے مراد امت محمدی ہے  ,,وسط,, کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر  افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا , اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو سورہ حج,78,( رسول تم  پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو ) ایک معنی کے اعتدال کے بھی ہیں یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے افراط و تفریط نہیں

Question 2
Ans 2
یہ تحویل قبلہ کے ایک غرض بیان کی گئی ہے کہ مومنین صادقین تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو  بلکل نماز کی حالت میں جبکہ وہ رکوع میں تھے  یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا یہ مسجد قبلاتین( یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قباء میں بھی ہوا تھا  (تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک  سے علیحدہ کر دیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں( فتح القدیر)
Question 3
Ans 3
یہاں رسول کا کام بتایا جا رہا ہے کہ,, جس طرح ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتوں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے

Question  4
Ans 4

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾
 اور اللہ تعالٰی کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو  وہ زندہ ہیں ،  لیکن تم نہیں سمجھتے ۔  
یعنی یہ بات ہماری ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے
Question 5
Ans 5
Ayat  155..
 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے بھوک پیاس سے مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں  کو خوشخبری دے دیجئے
Question  6
Ans 6
 قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ
ہم تو خود اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
Question  7

Ans,7
اللہ تعالی نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی انسان اس پر لعنت کرتے ہیں
Question  8
Ans 8
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ ۖوَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۶۸﴾ 
لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو  وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔  
No,1

 لوگوں زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو
No, 2

اور شیطانی راہ پر نہ چلو




Thursday, June 25, 2020

Surah Baqrah ayat no 141

سورہ بقرہ آیت نمبر 141 میں کس بات کی دلیل ہے تفسیر  سے بتائیں

صبغت اللہ سے کیا مراد ہے

صبغت اللہ سے کیا مراد ہے 
اس سے مراد  اللہ کا رنگ اختیار کرو  اور اللہ تعالی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا  دراصل عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جس کو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں بپتسمہ ہے یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے میں نے ان کی ان کی تردید فرمائی اور کہا کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے اس سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے ہے جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی یعنی دعوت توحید

Surah Baqrah ayat no 135

سورہ بقرہ آیت نمبر 135 یہود اور نصاری کیا کہتے تھے اور اللہ تعالی نے ان سے کیا فرمایا تفسیر سے بتائیں


 وَ قَالُوۡا کُوۡنُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی تَہۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ  اِبۡرٰہٖمَ  حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾ یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے ۔  تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں ،  اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مُشرک نہ تھے ۔
یہودی مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی عیسائیت کی دعوت دیتے اور کہتے ہیں کہ ہدایت اسی محل اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا یعنی الہ واحد کافرستان اور سب سے اور وہ مشرک  نہیں تھا جبکہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی آمیزش موجود ہے

Surah Baqrah ayat no 132

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کیا وصیت کی تھی تفسیر سے بتائیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے میں الدین کی وصیت اپنی اولاد کو فرمائیں جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے یہاں اس کی صراحت موجود ہے اور پرانے کریم پہدی میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی جیسا کہ,,,,,  ان الدین عنداللہ السلام,,,,, اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے

Surah Baqrah ayat no 129

سورہ بقرہ9 12 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے کن الفاظ میں دعا مانگی اور ان کی یہ دعا کس  صورت میں قبول  ہوئی
رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪        
 اے ہمارے رب !ان میں انہیں میں سے رسول بھیج  جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ،  انہیں کتاب و حکمت  سکھائے اور انہیں پاک کرے  یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے ۔ 
 یہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی آخری دعا ہے یہ بھی اللہ تعالی نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ  السلام کی دعا حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت رکھنے والدہ کا خواب ہو

ربنا تقبل منا کس نبی کی دعا ہے اور یہ کس وقت مانگی گئی

ربنا تقبل منا کس نبی کی دعا ہے اور یہ کس وقت مانگی گئی
یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا ہے جو خانہ کعبہ کی دیواریں اوپر اٹھاتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما اور تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے 

Surah Baqrah ayat no 125

سورہ بقرہ آیت سورۃ بقرہ آیت 125 میں بیت اللہ کی کیا خصوصیات بیان کی گئی ہیں تفصیل سے بتائیں 
بیت اللہ کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ لوگوں کے لیے ثواب کی جگہ جگہ دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے دوبارہ نہ آنے کے لیے بے قرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کمی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں بڑھتی رہتی ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا بھی خوف نہیں رہتا چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا بلکہ اس کی مزید تاکید فرمائیں

Sura Baqrah ayat no 121

سورہ بقرہ آیت نمبر 121 
قرآن کو پڑھنے کا حق کیا ہے تفسیر میں سے کوئی تین حق بتائیں 
1,,, خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کو سلام کرتے اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اسے پناہ مانگتے ہیں 
2,,, اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہیں اور کلام الہی میں تحریف نہیں کرتے 
3,,, اس میں جو کچھ تحریر ہے لوگوں کو بتاتے ہیں اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن مجید کو پڑھنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*قرآن کا حق*

 حضرت مولانا سجاد صاحب نعمانی فرماتے ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﺎﮔﺰﯾﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ *ﻗﺮﺁﻥ* ﮐﻮ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻭﻗﺖ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﮫ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺩﻻﺳﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﻧﺎﻃﮧ ﺟﻮﮌ لونگا۔ ﻭﻗﺖ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﻮﺭہ ﻣﺰﻣﻞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ  سامنے ﺁﮔﺌﯽ :

" *ﻭَﺍﻟﻠَّﻪُ ﻳُﻘَﺪِّﺭُ ﺍﻟﻠَّﻴﻞَ ﻭَﺍﻟﻨَّﻬﺎﺭَ ﻋَﻠِﻢَ ﺃَﻥ ﻟَﻦ ﺗُﺤﺼﻮﻩُ ﻓَﺘﺎﺏَ ﻋَﻠَﻴﻜُﻢ ﻓَﺎﻗﺮَﺀﻭﺍ ﻣﺎ ﺗَﻴَﺴَّﺮَ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻘُﺮﺁﻥِ ﻋَﻠِﻢَ ﺃَﻥ ﺳَﻴَﻜﻮﻥُ ﻣِﻨﻜُﻢ ﻣَﺮﺿﻰ ﻭَﺁﺧَﺮﻭﻥَ ﻳَﻀﺮِﺑﻮﻥَ ﻓِﻲ ﺍﻷَﺭﺽِ ﻳَﺒﺘَﻐﻮﻥَ ﻣِﻦ ﻓَﻀﻞِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﺁﺧَﺮﻭﻥَ ﻳُﻘﺎﺗِﻠﻮﻥَ ﻓﻲ ﺳَﺒﻴﻞِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻓَﺎﻗﺮَﺀﻭﺍ ﻣﺎ ﺗَﻴَﺴَّﺮَ ﻣِﻨﻪُ*:

*ترجمہ: ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﺩﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﭘﺲ ﺟﺘﻨﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﺗﻢ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭘﮍﮪ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ ﭘﮍھو۔ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﻣﺮﯾﺾ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺭﺯﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﯿﮟ ۔ ﭘﺲ ﺟﺘﻨﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﺑﺂﺳﺎﻧﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ہے ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺎ ﮐﺮو۔* (73:20)

کس قدر ﭘﯿﺎﺭ ﺑﮭﺮﯼ ﻧﺪﺍ ﮨﮯ میرے ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ۔  ﮐﮧ اے ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ، روزی کی طلب(یعنی معیشت) ﺣﺘﯽ ﮐﮧ میری ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﺩ کرنا بھی ﻗﺮﺁﻥ پڑھنے ﺳﮯ ﻧﮧ ﺭﻭﮐﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﮭﻮﮌﯼ سی محنت ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩیتا ہوں بس میری طرف متوجہ ہوجا۔

کتنا مہربان ہے میرا رب جس نے مجھے اتنی ﺳﮩﻮﻟﺖ دے رکھی ہے اگر میں پھر بھی قرآن کو نہیں پڑھتا تو صرف اپنا ہی نقصان کرتا ہوں۔ کیونکہ میں قرآن پڑھونگا نہیں تو سمجھوں گا کیسے اور سمجھوں گا نہیں تو اسکے احکامات پر عمل کیسے کرونگا؟ یہ یاد رکھنا کہ قرآن کو اللہ نے ہم پر فرض کیا ہے۔

 *إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ* 

بے شک(اے پیغمبر) جس (اللہ) نے تم پر *قرآن کو فرض کیا ہے*(28:85)

میری آپ سے درخواست ہے کہ قرآن کو اپنی ڈیلی روٹین میں شامل کریں اور روزانہ کم از کم ایک رکوع تو ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر لازمی پڑھیں۔ ورنہ جو لوگ قرآن نہیں پڑھتے وہ قرآن کا یہ فرمان بھی سن لیں!! جب قیامت کے دن نبی کریم ﷺ ان کی شکایت اللہ سے اس طرح فرمائیں گے۔

 *وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا* 

اور پیغمبرﷺ کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری امت نے *اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا* (25:30)

تو کوشش کریں کہ قرآن کو اپنی زندگی میں شامل رکھیں۔ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻭ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ اس آیۃ کو ﻧﮧ ﺑﮭﻮﻟﻨﺎ۔۔۔

*ﻓَﺎﻗﺮَﺀﻭﺍ ﻣﺎ ﺗَﻴَﺴَّﺮَ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻘُﺮﺁﻥ* ِ 

*پس ﺟﺘﻨﺎ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ہوسکے اتنا قرآن ﭘﮍھ لیا کرو*۔

اللہ تعالیٰ ہم کو قرآن کریم پڑھنے اور سمجھنے والا بنادے اور اس پر عمل کرنے والا اسکو دوسرے لوگوں تک پہنچانے والا بنادے آمین۔

 

Surah Baqrah ayat no 120

 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120
میں کس کے لئے وحید ہے
وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ  ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ  الۡہُدٰی ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ  ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۲۰﴾ؔ آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں  آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے  اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے ،  پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار  ۔  
اس میں اللہ تعالی   اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اے یہ وعید دے رہے ہیں کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان پر برخود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا  دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جارہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں نا دین میں مداخلت اور بےجا تا بجا تاویل کا  ارتقاب کریں

Monday, June 22, 2020

Ashabe kahf ka waqia

Ashabe kahf ka waqia....

Ashab e kahaf ka waqeia 
اصحاب کہف کا واقعہ

کہف کے معنی غار کے ہیں اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا اس لئے اسے سورہ کہف کہا جاتا ہے اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا صحیح مسلم
جو اس کی تلاوت جمعے کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی اس کے پڑھنے سے گھر میں سکینہ تو برکت نازل ہوتی ہے ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی انہوں نے سورہ کہف پڑی گھر میں ایک جانور بھی تھا وہ بدکنا شروع ہوگیا انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے تو انہوں نے ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا یا اسے پڑھا کرو قرآن پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے
صحیح بخاری کہف وہ غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے .......بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع ہے  اور کہتے ہیں رقیم مرقوم سے ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے اسی سے کی جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ نام تحریر ہے حالیہ تحقیق سے معلوم ہے تو پہلی بات زیادہ صحیح ہے جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے الرقیب کہا جاتا  ہے................   .....Ashabe kahf ka waqia
 کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا دقیانوس جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا اللہ تعالی نے ان چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان اور زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے یہ الگ ہوکر کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ توحید کا چرچا ہوا تو بادشاہ تک بات پہنچ گئے اور اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی اور اپنی رقوم کے ڈر سے بچانے کے لیے ہوگئے جہاں اللہ تعالی نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ 309 سال سوئے رہے اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لیے بڑا سبق ہے اللہ تعالی سورہ کہف کی آیت نمبر 13 میں فرماتے ہیں ہم ان کا صحیح واقعات تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ہم نے انکے دل مضبوط کر دیے تھے جبکہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلب ہوئی ہے جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے توحید کا یہ واضح بیان کیا بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے ایک دوسرے کو توحید کی وہ بات سنائی جو فردن فردن  اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہمی ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے نا ممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارے اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی یہ ہے ہماری قوم جس نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ان کی خدائی کی یہ کوئی صاف دلیل کیوں پیش نہیں کرتے اللہ پر جھوٹ افترا باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہے
Ashabe kahf ka waqia 
آیت نمبر 15
جبکہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو تمہارے رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا آپ دیکھیں گے کہ آفتاب وقت لو ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس بار کشادہ جگہ میں ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالی جس کی رہبری فرمائیے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کردے ناممکن ہی کارساز رہنما پاسکے یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کرلی ہے تو آپ جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا چنانچہ اس کے بعد وہ غار میں جا چھپے  جب ان کے غائب ہونے کی  خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں کو  ناکام رہے تھے یعنی سورج طلوع کے وقت تو دائیں جانب اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں وقت  میں ان پر دھوپ نہ پڑتی حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے خود ہم ہیں انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا اگر آپ جان کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اوران کے رعب  سے آپ پر دہشت ہو جاتی یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے انتظام تھا  تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جا سکے18
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں ایک کہنے والے کیوں بھائی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالی ہی کو ہے اب تو تم کو اپنی ہی چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کے شہر کا کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لیے لے آئے اور وہ بہت احتیاط اور نرمی بڑھتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا یوں وہ ہم سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم دن کا کچھ حصہ سوئے رہے بعض روایت کے مطابق کی آگاہی اسی طرح ہوئی کہ جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا وہ سکّہ لے کر شہر گیا جو تین سو سال قبل بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا تو وہ حیران ہوا اس نے سات کی دکان والے کو دکھایا وہ بھی حیران ہوا جبکہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اسی شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہیں یہاں سے گیا ہوں لیکن اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھی لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو بات بات بادشاہ یہاں کی میں مجاز تک پہنچی اور اس کے ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور صحابہ کہ آپ سے ملاقات کی اس کے بعد اللہ تعالی نے انہیں پھر وہی وفات دے دی ابن کثیر
اگر یہ کافر تم پر غلبہ پالے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں پھر اپنے دین پر لوٹ آئیں گے اور پھر تم کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکو گے20 یعنی آخرت کے جس کامیابی کے لیے ہم نے یہ سوبت مشقت برداشت کی ظاہر بات ہے کہ اگر ہم اہل شہر نے ہمیں مجبور کرکے پھر اپنے آبائی دین کی طرف لوٹا دیا تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا ہماری محنت برباد ہوجائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے
ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت پر میں کوئی شک و شبہ نہیں جبکہ وہ اپنے میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے کہنے لگے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ہیں ان کے حال کا زیادہ علم ہے جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم بنا لینگے21
یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنھوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر دریافت ہوئی تو نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے علم منائے کے فلاں  فلاں پیغمبر کی ہے تفسیر ابن کثیر کچھ لوگ تو کہیں گے کہ اصحاب کہف تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا کچھ کہیں گے کہ پانچ دے اور چھٹا ان کا کتا تھا غائب کی باتوں پر اٹکل چلاتے ہیں کچھ کہیں گے کہ وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ان کی تعداد کو خوب جاننے والا ہے انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں بس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگوہیں کریں اور ان میں سے کسی سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ بھی نہ کریں یعنی صرف انہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے کردی گئی ہے صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھی تھی روح کی حقیقت کیا ہے اس تھے کہ یہی سوالات اس سورت کے نزول کا سبب بنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دوں گا لیکن اس کے بعد پندرہ دن تک جبرئیل بہی لے کر نہیں آئے پھر جب آئے تو اللہ تعالی نے نے ان شاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا 
مگر ساتھ ہیں انشاللہ کہ لینا اور جب بھی بھولے اپنے پروردگارکی یاد کرلیا کرنا اور کہتے رہنا کہ مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھ سے اس سے بھی زیادہ ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کریں 24
Ashabe kahf ka waqia

Surah  e kahaf
 analysis 
 

 *سورۃـالکہف* 

ڈاکٹر فرحت ھاشمی 
   نے دو سال لگائے سورہ کہف  سمجھنے میں اور ۱۲۰ تفاسیر کا
 مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی۔ 

ہم اس سورۃ کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔ 

تو اس سورۃ کامقصود/ لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی ، غمی۔ 
ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے۔ ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہو ں گے۔ تو یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے۔ یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں۔ یا صحت ہو گی یا بیماری۔ تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے۔ کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔ 
تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبرکا پیپر۔ اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا ۔ اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا۔ 
یہ زندگی دار الامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسراشکر کا۔ 
اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا۔ پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔ 
*حضرت آدم علیہ اسلام کاواقعہ۔ 
یہ قلب ہے اس سورت کا۔ آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی۔ 
آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہو کر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے، دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے۔ ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا۔ اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کےپیپر لیتے ہیں۔ 
کچھ نکات

※ اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربویت کے تذکرے پر کیا۔
※ شروع سورۃ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔ 
※ انسان کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے۔ اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آ جائے۔ اب صرف محبت کا آ جانا مقصود نہیں ہے ، جب محبت آ جائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور رضا کیا ہے اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا۔ 
جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہو جائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہو جاتا ہے۔ 
※ عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیئے استعمال کیا۔ 
مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا ، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔
※ چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لیے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔ اس لیےکہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔
※ پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ ،اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور۔ 
آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔ آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے۔ اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا۔ جی ہاں کہف میں!
※ آج کے زمانے میں پانچ کہف ہیں۔ اگر انسان ان میں داخل ہو جائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے۔ 
※ *ان میں پہلا کہف ہے مدارس
ان میں جو داخل ہو جائے وہ اپنا ایمان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 
※ دوسرا اللہ والوں کی خانقاہیں
جو لوگ اللہ والوں سے جڑ جاتے ہیں تو وہ لوگ زمانے کے فتنے اور فساد سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ 
 ※ تیسرا دعوت و تبلیغ کا کام کرنایہ بھی کہف کی مانند ہے۔  وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے گھر والوں کا دین بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔ 
※ چوتھا قرآن مجید
جو قرآن کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے اس کو پڑھنا ،سیکھنا ،سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچا لیتا ہے اور قرآن اس کے لئیے کہف بن جاتا ہے۔ 
※ پانچواں مکہ اور مدینہ
یہ پانچواں کہف ہے۔ احادیث کے مطابق جو بھی ان میں داخل ہو جائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا۔* 
تو یہ پانچ کہف ہیں جن میں داخل ہونے سے انسان اپنے ایمان کو بچا لیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ 

اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔ 
※ اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔ 
اور ان پانچ کہف کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

※ صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا 
کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آ گیا اور اس نعمت سے محروم کر دیا گیا۔ 
※ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لیئےدار اقامت ہے  ہمارا اصلی وطن جنت ہے دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بےوقوفی کی بات ہے۔   شیطان بدبخت نے ہمیں چھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں۔ اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچا دے۔ آمین
※ موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں ،دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا۔ 
انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ 
جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام  کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں۔ 
علم اوربھی اس سے کہیں زیادہ  ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف   انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندہ کا ذہن محفوظ ہو جاتا ہے۔  
※ حضرت ذوالقرنین کے واقعے سےسبق ملا
حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست  رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیئے اللہ کے بندوں کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے۔ ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیئے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پراللہ کا قانون نافذ کرتے تھے۔ جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں  مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار/ طاقت کو  اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔

※ سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کر کے بندے کے ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کی جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں :۔
1-جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ ہر وقت دنیا اور اس کی لذات کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہےلہذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔

2-اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اہنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کرسکو گے۔ 
 
3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے، جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص دو کام کرے ایک نیک عمل اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے۔ 
اللہ ہمیں بھی اپنا دیدار عطا نصیب فرمائے آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین مین